Friday 16 December 2016

صحرائے تھر ۔۔ کارونجھر کے دامن میں ۔۔ نگرپارکر

 سوئے صحرائے تھر اور وادی کارونجھر
آئو کہ کہیں دور چلیں ۔۔۔
شہر کی وحشتوں اور آلودگیوں سے دور ۔۔۔
صحرائے تھر کے خوبصورت سناٹوں کی قربت میں ۔۔
کارونجھر کے دامن میں بکھری شفاف چاہتوں کے حصار میں ۔

بدھ 16 نومبر اورجمعرات 17 نومبر 2016  کی درمیانی شب  کے آخری پہر سے ہفتہ 19 نومبر 2016 کی سہ پہر تک ۔۔۔

17 نومبر 2016
سردیوں کی یہ شب تاریک تو بہت تھی لیکن زیادہ سرد نہ تھی۔رات کے سوا چار بجے تھےجب ہم گھر سے روانہ ہوئے ۔
دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں  سے شاید کراچی کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتا جا رہا ہے ۔موسم سرما کا مزا لینے کے لئے اہل کراچی ویسے بھی ہمیشہ سے بلوچستان کے پہاڑوں سے ادھر کا رخ کرنے والی سرد ہوائوں کے محتاج ہوتے ہیں۔لیکن لگتا ہےایک دو سال سے  کراچی تک پہنچتے پہنچتے ان کی ٹھنڈک بھی دم توڑ جاتی ہےیا پھر وہ اہل کراچی سے نالاں ہیں کہ ادھر کا رخ ہی نہیں کرتیں۔
    گھر سے نکلتے وقت  ہم نے گرم کپڑے  تک نہیں پہنے ،سفر شروع ہوا تو صرف گاڑی کے شیشے بند کرنے سے ہی ہلکی سی سردی کا توڑ ہو گیا۔رات کے سناٹے میں ہی شاہراہ فیصل سے نکلتے ہوئے نیشنل ہائی وے پر سفر جاری رہا۔دھابے جی سے  گھارواورگجو اور مکلی تک سڑک کا بائیں طرف کا حصہ زیرتعمیر ہونے کے باعث  ہم  رات کی تاریکی کے باعث زیادہ تیزرفتاری سے سفر نہ کرپائے۔اندھیرا تو تھا ہی ،دوطرفہ ٹریفک کیلئے جگہ جگہ طویل سنگل ٹریک  اور سامنے سے آنے والی گاڑیوں کی تیز ہیڈ لائیٹس کی چمک سے بچنے کے لئے  بھی انتہائی محتاط ڈرائیونگ لازمی تھی۔
    گجو کے پاس دونوں نہروں پر بنے پلوں کو عبور کرنے کے بعد آسمان کی سیاہی پر صبح صادق کی سفیدی اترنا شروع ہوئی۔
    مکلی کے قریب پہنچے تو نماز فجر کیلئے سجاول بائی پاس سے ذرا قبل  کچھ دیر کیلئے رکے ۔۔
صبح کی خنکی سردیوں کی آمد کی خبر دیتی تھی  ۔۔۔ شہر ی آبادیوں سے دور اس کھلی فضا میں پہلی بار کچھ حقیقی ٹھنڈک کا احساس ہوا۔نماز کے بعد ساتھ لائے تھرماس سے نکلی گرما گرم چائے اور ابلے ہوئے انڈوں سے خود کو کچھ گرمایا  ۔۔








آج سے قبل ہمیشہ صرف نیشنل ہائی وے پر ہی سفر کیا تھا، پہلی بار دائیں طرف گھومتے   بائی پاس  پر مڑے ۔سڑک بہترین تھی۔
کچھ ہی دیر میں ٹھٹھہ سے سجاول جانے والے راستے تک پہنچ گئے۔
دریائے سندھ کے قریب تر ہوئے  تو صبح کی سفیدی میں سے سورج کی سنہری کرنیں پھوٹیں۔
دریا کے پل پر پہنچے تو پانی میں اترتے سورج کے حسین عکس نے چند لمحوں کیلئے ہمارے قدم روکے ۔۔۔









نیشنل ہائی وے سے دائیں طرف مڑنے کے بعد سےسڑک بدستور بہترین حالت میں تھی۔سجاول اور بد ین میں داخل ہوئے بنا بائی پاسز سے نکلتے ہوئے  اورگولارچی کے قصبے کے درمیان سے گزرتے آگے بڑھتے رہے ۔۔
ناشتے کیلئے تھرپارکر کی حدود میں داخل ہونے سے کچھ قبل نیوی پمپ سے متصل چھوٹے سے ہوٹل میں رکے ۔۔۔







تھرپارکر میں داخلے کے گیٹ کے پاس  کیکڑے کے نام سے  معروف  صحرائوں میں چلنے والے مخصوص ٹرک  سے پہلی ملاقات  ہوئی۔
10 بجے باب تھرپارکر سے کچھ ہی دوری پر واقع ونگو موڑ پہنچے ۔۔
پروگرام کے مطابق پہلے نوکوٹ کے قلعے کا رخ کرنا تھا۔۔ جس ہوٹل پر ناشتے کیلئے رکے تھے وہاں سے پتہ چلا کہ ونگو موڑ سے مٹھی جانے والی سڑک  انتہائی لاجواب  اور بقول ہوٹل والے کے "وی آئی پی"ہے، جبکہ ونگو موڑ سے نوکوٹ اور پھر نوکوٹ سے مٹھی تک جانے والا راستہ   زیادہ   اچھا نہیں ۔
"وی  آئی  پی "کےحروف کی چمک دمک نے اپنا کام کر دکھایا۔ونگو موڑ سے نوکوٹ جانے کے بجائے ہم مٹھی کی جانب مڑ گئے ۔۔۔






    صحرائے تھر کا آغاز ہواتو شاندار شاہراہ کے دونوں اطراف ریت کے ٹیلوں اور ان کے درمیان اگی سبز جھاڑیوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلا ۔۔
شاہراہ کبھی اوپر کا رخ کرکے کسی بلند ٹیلے پر جا چڑھتی تو پھرصحرا کے درمیان  ڈھلان کی طرف جاتی سیدھی لمبی ،کشادہ اور ہموار  سیاہ سڑک بہت خوبصورت دکھائی دیتی  ۔ریگزاروں میں گھومتی پھرتی ہو امیں صبح کی  خنکی ہنوز برقرار تھی ۔
ونگو موڑ سے مٹھی بائی پاس پہنچنے میں ہمیں صرف پون گھنٹہ لگا۔
صبح رفتہ رفتہ دوپہر کی طرف بڑھتی  گئی۔۔ ادھرریگزاروں میں چلتی ہوا میں ٹھنڈک کچھ کم ہوتی گئی ۔۔۔
دھوپ کی بڑھتی تپش کے باوجود موسم بدستور خوشگوارتھا۔
ٹھیک 11 بجے بائی پاس چھوڑ کر مٹھی شہر کے قریب بلندی پر واقع تفریحی مقام گڈی بھٹ 
کی طرف جانے والی راہ کے موڑ تک پہنچ گئے۔








ریگزاروں کی دنیا تھرپارکر کے صدر مقام مٹھی کے در پر پہنچے ۔۔۔ 
شہر میں جانے کے بجائے  دائیں جانب مڑے اور کچھ ہی دیر میں مٹھی کے سر پر سجے گڈی بھٹ پر جا چڑھے ۔۔
ریت کے بلند ٹیلے پر واقع امر جگد یش کمار ملانی کے یادگار ٹاور  سےٹیلے کے عین دامن میں نشیب کی جانب دکھائی دیتے مٹھی شہر کا نظارہ انتہائی دلکش تھا۔
موسم سرما کے آغاز میں مٹھی کے بلند اور پرفضا مقام پر گزری ایک یادگار دوپہر۔۔
مٹھی میں گزرنے والی  وسط نومبر کی اس دوپہر ہوا میں ٹھنڈک تو تھی لیکن دھوپ میں حدت رفتہ رفتہ بڑھتی تھی ۔۔
مجموعی طور پر موسم بدستور خوشگوار  اور سورج سے ریگزاروں میں اترتی تپش قابل برداشت تھی۔

















مٹھی سے نکلے ،، بھری دوپہر میں ریت کے اونچے نیچے ٹیلوں کے درمیان گھومتی پھرتی بہترین کشادہ سڑک پر اسلام کوٹ کی طرف روانہ ہوئے۔
آسمان بالکل صاف  ۔۔ سورج کی کرنیں صحرائے تھر پر برستی ہوئی ۔۔ لیکن   ۔۔ریگزاروں میں چلتی ہوا بدستور خوشگوار۔۔
کہیں سڑک کنارے تھری خواتین مخصوص روایتی رنگ برنگے لباس اور گہنوں سے لدی پھندی ، اپنے علاقے سے گزرتے اجنبی لوگوں سے گھبرا کر بڑے بڑے آنچلوں میں اپنے چہرے چھپاتی دکھائی دیتیں تو کبھی صحرائی جہاز اونٹ سڑک عبور کرکے ایک ریگزار سے نکل کر دوسرے کا رخ کرتے نظر آتے ۔۔ 
راہ شاندار تھی ، فاصلے تیزی سے سمٹے ، ہم پونے بارہ بجے مٹھی سے نکلے اور ساڑھے 12بجے اسلام کوٹ کے قصبے میں وارد ہوگئے۔
شہر کے تنگ مین بازار میں رونق اپنے عروج پر تھی۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے بھی ٹھیک ٹھاک رش  کا سامنا کرنا پڑا۔ 
اسلام کوٹ میں مقیم پیارے دوست عبدالغنی بجیر اس وقت مٹھی میں تھے لیکن انہوں نے اسی بارونق بازار میں واقع ایک گیسٹ ہائوس میں لمبے سفر کے بعد ہمارے آرام کیلئے کمرے کا بندوبست کر رکھا تھا ۔۔۔۔ 
بازار کے رش اور دھوپ کی بڑھتی تپش سے نکل کر پرسکون اور ٹھنڈے کمرے نے ہمیں فوراً ہی تاز ہ دم کر دیا ۔۔
ہم نے دو گھنٹے اسلام کوٹ میں گیسٹ ہائوس کے آرام دہ کمرے میں گزارے۔












    عبدالغنی بجیر مٹھی سے لوٹے تو ہم سے ملنے آئے۔ چاہتے تھے کہ ہم لنچ ان کے ساتھ کریں ۔ ماروی اور عمر اسلام کوٹ سے 50 کلومیٹر دور بھالوا گائوں میں ہمارے منتظر تھے ،، ان سے ملاقات کرتے ہوئے مغرب سے قبل نگرپارکر پہنچنا تھا ،اس لئے  ان کے پرزور اصرار کے باوجود  ہمیں ان سے معذرت کرنا پڑی۔
پونے تین بجے سہ پہراسلام کوٹ سے نکلے ، دھوپ تیز تھی لیکن اس کی تیزی ہوا کی ٹھنڈک تک اپنا اثر نہ کر پا رہی تھی ۔ 
ایک دو کلومیٹر بعد ہی اس کشادہ اور بہترین شاہراہ نے ہم سے جدائی اختیار کر کے تھر کول فیلڈ کی طرف اپنا رخ موڑ لیا۔
ہم ایک نسبتاً تنگ سڑک پر نگرپارکر کی طرف بڑھ گئے۔ 30 ، 35 کلومیٹر بعد رفتہ رفتہ سڑک کے دونوں اطراف ریت کے بلند ٹیلوں کا سلسلہ ختم ہوتا گیا ۔۔
ہمارا سفر اب زیادہ تر میدانی علاقے میں جاری تھا۔ ۔۔
بھالوا گائوں کے قریب ماروی اور عمر کی قیام گاہ کا پتہ بتانے والا کوئی بورڈ یا نشان سڑک کنارے نظر نہ آیا اور ہم بائیں طرف مڑنے والی سڑک کو چھوڑتے ہوئے ایک ڈیڑھ سو میٹر آگے نکل گئے۔ لیکن  بھالوا گائوں میں بسی عشق و محبت کی زبردست کشش نے ہمیں واپس بائیں طرف مڑنے والی راہ کی طرف کھینچ لیا۔
ایک پختہ لیکن انتہائی ٹوٹی پھوٹی تنگ سڑک پر کچھ پرے دکھائی دیتے بھالوا گائوں کے پاس سے گزرتے ہوئے تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہم پہلے محکمہ ثقافت سندھ کی جانب سے تعمیر کردہ چار دیواری میں موجود ماروی کے کنویں کے پاس پہنچے۔ جہاں میری ماروی نے کنویں سے پانی نکالنے کی کامیاب کوشش بھی کی۔ 








تھر کے مخصوص طرز تعمیر کے گول جھونپڑی نما گھروں سے ملتے جلتے چند ماڈل گھر اس چاردیواری میں بنائے گئے تھے لیکن یہ گھر تھر کے تپتے اور سلگتے صحرا کے باسیوں کے گھروں کی طرح انتہائی سادہ اور مفلوک الحال  نظر نہ آتے تھے ، ان کے شاندار اندازتعمیر سے آسودگی جھلکتی اور خوشحالی ٹپکتی تھی۔ البتہ تھر باسیوں کی حقیقی کیفیت کی تصویر دکھاتی ایک نسبتاً بوسیدہ سی گول جھونپڑی بھی چار دیواری میں موجود تھی۔
عمارت کے نگران کی معیت میں ہم ماروی اور عمر سے ملنے ان کے کمرے میں گئے۔
ماروی کمرے کی ایک دیوار کے پاس اپنی سہیلی کے ساتھ بیٹھی چرخہ کات رہی تھی جبکہ عمر اس کے بالکل سامنے والی دیوارکے پاس بیٹھا اس کوتکتا تھا۔
میری ماروی نے دونوں خواتین کے پاس بیٹھ کر ان سے حال احوال پوچھا، میں نے عمر کے قریب ہو کر اس کی خیریت دریافت کی۔
عمر اور ماروی اپنی طویل داستان ہمیں سنانا چاہتے تھے لیکن ہمیں کارونجھر کے پہاڑ پکارتے تھے۔ سہ پہر شام میں ڈھلتی تھی ، ابھی بھی نگرپارکر تک ہمیں اچھا خاصا طویل سفر طے کر نا تھا، اس لئے کچھ دیر ان کی معیت میں گزار کر ہم نے ان سے اجازت چاہی اور بھالوا گائوں سے رخصت ہوئے۔ 
شام کے سوا چار بجے بھالوا گائوں سے نکل کر دوبارہ نگرپارکو جانے والی سڑک پر پہنچے۔




























جوں جوں آگے بڑھتے تھے سڑک کی حالت ابتر ہوتی جاتی تھی۔ گاڑی کی رفتار تو کم کرنی ہی پڑی ، سڑک پر جا بجا موجود چھوٹے چھوٹے گڑھوں سے نمٹتے وقت گاڑی کی اچھل کود کی وجہ سے ہم بھی خاصا ہلے جلے۔ نتیجتاً ونگو موڑ کے قریب کیا گیا صبح کا ناشتہ مکمل طور پر ہضم کر بیٹھے ۔ اسلام کوٹ سے چلتے وقت ذہن میں تھا کہ جس شاندار سڑک پر سفر کرتے آئے ہیں وہ نگرپارکر تک ہمارا ساتھ دے گی اور ہم بآسانی ڈیڑھ گھنٹے میں اپنی منزل تک پہنچ پائیں گے ، لیکن وہ شاندار سڑک تھر کول ایریا کی چاہت میں گرفتار ہو کر ہمیں اسلام کوٹ کی حدود سے نکلتے ہی داغ مفارقت دے گئی تھی۔
ہمسفر نے مژدہ سنایا کہ وہ گھر سے چلتے وقت بھنڈی کی ترکاری ساتھ لے آئی تھی، لیکن یہ خوشخبری ادھوری تھی ، ہمارے پاس سالن تو تھا روٹی نہ تھی۔ 
پندرہ بیس منٹ کے سفر کے بعد کسی گائوں کی طرف جانے والے چوک کے پاس ایک چھوٹا سا ہوٹل دکھائی دیا ۔ چھائوں میں بچھی چارپائی پر جا بیٹھے۔ ارادہ تھا کہ کھانے کے بعد چائے بھی پئیں گے لیکن وقت اب تیزی سے اڑ رہا تھا۔ دوپہر کے کھانے کا وقت کب کا گزر گیا تھا۔ ہوٹل والے کو چولھے میں لکڑیاں سلگا کر توا گرم کرنے اور دو چپاتیاں تیار کرنے میں ہی خاصا وقت لگ گیا ۔ ہم نے چائے پینے کا ارادہ ترک کیا اور گرم گرم چپاتیاں ساتھ لے کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔





گرم گرم چپاتیوں پر بھنڈی کی ترکاری ڈالی تو وہ بھی گرم ہوگئی۔ ہمسفر نے کھانے کے ساتھ ساتھ مجھ کو کھلانے کا فریضہ بھی انجام دیا۔
آج سے32 سال قبل ایک دوپہر کو اپنے ہنی مون ٹرپ پر ہم سوات سے براستہ شانگلہ پہلی بار شاہراہ قراقرم پر بذریعہ مسافر وین داخل ہوئے تھے۔ بشام کے چھوٹے سے قصبے کے چوک پر واقع کچے ہوٹل کے پاس نیٹکو کی بس گلگت روانگی کیلئے تیار کھڑی تھی۔ میں ہمسفر کو بس میں بٹھا کر ہوٹل سے گرم گرم تنور کی روٹیوں پر بھنڈی کی ترکاری ڈلوا کر بس میں سوار ہو گیا تھا۔ وہ ہمسفر کے ہمراہ شاہراہ قراقرم پر میرا شمال کا پہلا سفر تھا۔ آج ہم سندھ کے انتہائی مشرق کی جانب واقع نگرپارکرکی سمت گامزن تھے اور اس سڑک پر بھی یہ ہمارا پہلا سفر تھا۔ ایک بار پھر ہمسفر کے ہاتھ میں گرم گرم روٹیوں پر بھنڈی کی ترکاری تھی۔ فرق تھا تو صرف اتنا کہ 1984 میں ترکاری بھی ہوٹل کی تھی اور روٹیاں بھی ہوٹل کے تنور کی ، آج ترکاری گھر کی اور روٹیاں ہوٹل کے توے پر پکائی گئی چپاتیوں کی صورت ۔
سڑک بدستور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی ، راستے میں کہیں کہیں مقامی خواتین تباہ حال سڑک کنارے اپنے گھروں کا رخ کرتی نظر آتی تھیں ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کی انتہائی کٹھن اور بے رنگ زندگی کی سب شوخیاں اور رنگ سمٹ کر صرف ان کے لباس تک محدود ہو گئے ہوں۔ سر پر رکھے بڑے سے بھاری ٹوکرے میں لدی جھاڑیوں کی شاخیں ، درانتی اور پانی کی بوتل ، ایک بچی کے ہاتھ میں دو پیارے سے میمنوں سے بندھی رسی، خاتون حسب معمول خود کو دھوپ کی تمازت اور سڑک پر سفر کرنے والے اجنبیوں کی بصارت سے بچانے کیلئے آنچل کا بڑا سا گھونگٹ لئے ہوئے۔ 
5 بجے کے لگ بھگ ہم ویراواہ کے قصبے کی طرف جانے والے چوک پر واقع رینجرز کی چوکی پر پہنچ گئے۔ نگر پارکر پاک بھارت سرحد کے قریب کا آخری بڑا قصبہ ہے ، اس لئے رینجرز کی چوکیوں کی اس علاقے میں موجودگی ایک لازمی امر تھا۔ شناختی کارڈ کے اندراج کے بعد آگے بڑھے تو سڑک کی حالت پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو گئی۔



    نگرپارکر سے کچھ قبل ایک چوک سے دائیں طرف قریب ہی واقع بھودیسرگائوں کیلئے سڑک مڑتی ہے جہاں ایک قدیم مسجد، ڈیم اور پرانا مندر ہے۔ چوک پر بنی حفاظتی چوکی کے پاس موجود شخص سے مزید معلومات حاصل کرنے کے بعد ہم بھود یسرکی سمت مڑگئے۔ ابھی مغرب میں آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت باقی تھا۔ مسجد بمشکل ایک کلومیٹر کی دوری پر تھی لیکن ہم غلطی سے 3 یا 4 کلومیٹر تک چلتے چلے گئے، سڑک کنارے جانے والے چند مقامی بچوں سے پتہ پوچھ کر واپس پلٹے ۔ 
سڑک سے کچھ ہی فاصلے پر موجود چھوٹی سی تاریخی مسجد تک پہنچے ، فوج کے ایک کپتان اور ان کی فیملی بھی وہاں موجود تھی۔ شام خاصی ڈھل چکی تھی ، اس وقت ڈیم کی طرف جانا مناسب نہ تھا۔سورج مغرب سے کچھ قبل ہی مسجد کے عقب میں دور دکھائی دیتے کارونجھر کے پہاڑوں کی اوٹ میں چھپ گیا تو ہم یہاں سے پلٹے اور نگرپارکر کے قصبے کا رخ کیا۔ 






    قصبہ زیادہ دور نہ تھا ،غروب آفتاب سے کچھ قبل ہی ہم نگر پارکر کے آغاز میں ہی واقع ریسٹ ہائوس تک پہنچ گئے۔ 
    رات کو گاڑی میں قصبے کے چھوٹے سے بازار کا ایک چکر لگایا ، شب کچھ ڈھلی تو تاریکی تو ضرور بڑھی ، نگرپارکر میں سردی نہ بڑھی ۔صرف ہلکی سی خوشگوار خنکی محسوس ہوتی تھی جب ہم ریسٹ ہائوس کے کشادہ پارکنگ ایریا میں ٹہلتے تھے۔ دور مزید مشرق کی طرف واقع چوڑیو کے قصبے کی سمت دکھائی دیتے سیاہ آسمان میں زرد چاند طلوع ہوتا تھا۔







18 نومبر 2016 
  کل رات جدھر سے چاند نکلا تھا اور آج سورج کوطلوع ہونا تھا ، ہمیں آج علی الصبح اسی سمت 3 طرف سے بھارت کی سرحدوں میں گھرے چوڑیو  گائوں جانا تھا۔ جس طرح ہم اپنے ہاتھ میں ہتھیلی ، چاروں انگلیوں اور انگوٹھے کے درمیان گلاس تھامتے ہیں ، قریب ہی موجود 3 اطراف سے بھارت کی سرحدوں کے درمیان واقع چوڑیو گائوں کا محل وقوع بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے چوڑیو ایک گلاس ہو جسے بھارت نے اپنے ہاتھ میں تھام رکھا ہو۔ 
 گائوں کا فاصلہ نگرپارکر کے قصبے سے تقریباً 35کلومیٹر تھا اور وہاں تک جانے والی راہ کچی اور ریتیلی۔ اپنی گاڑی میں تو وہاں تک جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، لہٰذا میں نے رات میں ہی ایک جیپ والے سےمعاملہ طے کرکےصبح ساڑھے6 بجے نگرپارکر سے روانگی کا کہہ دیا تھا۔
    ہم فجر کی نماز کے بعد چوڑیو روانگی کے لئے تیار ہو گئے۔چاہتے تھے کہ سورج نکلنے سے پہلے پہلےنگرپارکر کی آبادی کی حدود سے نکل کر مشرق کی سمت پھیلے کھلے میدانی علاقے میں پہنچ کر طلوع آفتاب کے حسین منظر سے لطف اندوز ہوں اور ناشتہ 9 یا ساڑھے 9 بجے تک وہاں سے واپسی کے بعد کیا جائے ۔۔۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔۔ 
    ابھی ریسٹ ہائوس کے پارکنگ ایریا میں ہم جیپ کا انتظارہی کرتے تھے کہ سورج مشرقی افق سے ابھرنا شروع ہو گیا۔ انتظار بڑھتا گیا ، ریسٹ ہائوس کی عمارت سے نکل کر ہم سامنے موجود سڑک کنارے ٹہلتے رہے۔ فضا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ صبح کے سہانے وقت کواگر جیپ ڈرائیور کے انتظار کی کوفت کرکرا نہ کرتی تونگر پارکر کی یہ صبح ہمیں اور زیادہ خوشگوار بھی محسوس ہو سکتی تھی۔ جیپ آدھےگھنٹے سے بھی زیادہ تاخیر سے 7 بجے کے بعد ریسٹ ہائوس پہنچی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ 7 بجے سے قبل تو رینجرز والے آگے جانے کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ یہی بات وہ رات کو بتا دیتا تو ہم خواہ مخواہ کے انتظار کی اس زحمت سے بچ جاتے۔
   اگلا مرحلہ ریسٹ ہائوس سے کچھ ہی فاصلے پر واقع رینجرز کی چوکی سے چوڑیو جانے کی اجازت لینے کے ساتھ ساتھ اپنے کوائف کےاندراج کا تھا۔ جیپ ڈرائیور نے تو تاخیر سے پہنچ کر ہمارے دماغ کے صرف ایک دو طبق ہی روشن کئے تھے، چوکی پر موجود رینجر اہلکار نے پورے چودہ طبق روشن کر دئیے۔ بھارت کے ساتھ تازہ ترین کشیدہ صورتحال کی بنا پر وہ ہمیں چوڑیو جانے کی اجازت دینے پر تیار نہ تھا۔ ہم لگاتار اصرار کرتے تھے اور وہ مسلسل انکار۔ بالآخر ہمارےانتہائی اصرار نے اس کے سخت انکار کو کچھ نرم کیا اور وہ بمشکل اس بات پر راضی ہواکہ صبح 8 بجے اس ضمن میں اپنے کسی بڑے افسر سے رابطہ کرےگا۔ اس کے بعد ہی ہم ان کی طرف سے اجازت ملنے یا نہ مل سکنےکے بارے میں آگاہ ہو پائیں گے۔ بجھتے ہوئےدل میں خوشی کی اک لہرسی اٹھی ، مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی کرن سی جگمگائی۔نگرپارکرکے قصبے میں سورج آہستہ آہستہ بلند ہوتا تھا اور چپکے چپکے رینجراہلکار سے ہمارےاصرار ، اس کے انکار اور پھر جزوی اقرار کا تماشہ دیکھتا تھا۔





8 بجے تک کا وقت گزارنے کے لئے صبح کا ناشتہ کر لینے سے بہتر کوئی اور بات نہ تھی۔جیپ ڈرائیور ہمیں بازار میں واقع ایک چھوٹے سے ہوٹل تک لے گیا۔ 
   ٹھیک8 بجے ہم دوبارہ چوکی پر تھے۔نہ جانے اہلکار نے اپنے افسر سے بات کی یا ہمارے اشتیاق کی شدت سے اس کا دل پسیجا،ہمارے شناختی کارڈ کا اندراج رجسٹر میں کر دیا گیا۔
    قصبے سے نکلے تو کچھ ہی دیر بعد پختہ سڑک کا اختتام ہو گیا۔کچا راستہ مشرق کی طرف بڑھتا گیا۔مضافاتی آبادی سے نکل کر وسیع و عریض میدانوں کے بیچ جیپ دوڑتی رہی۔ کچھ کچھ فاصلے پر دکھائی دیتی کیکر کی جھاڑیاں ، کچی سڑک کبھی مٹی کے ہموار میدان سے گزرتی تو کبھی ذرا اونچے نیچے ریتیلے علاقوں کا رخ کرتی۔ کہیں آٹھ دس گول جھونپڑی نما گھروں پر مشتمل کسی چھوٹے سے گائوں کے قریب پہنچتی تو گھروں کے گردونواح میں کھیتوں اور کھلیانوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ جوار ،باجرہ اور پیاز کے کھیت ہمیں زیادہ دکھائی دئیے۔ ریتیلے راستے سے گزرتے ہوئے کبھی گائے بکریوں کا کوئی ریوڑ ہماری راہ مسدود کر دیتا توکبھی کسی بیل گاڑی کی وجہ سے ڈرائیور جیپ آہستہ کرکے بمشکل اس کو راستہ دیتا یا اوور ٹیک کرپاتا۔ کہیں ایسا بھی ہوتا کہ کشادہ میدان کے بیچ اچانک بیک وقت تین چار کچے راستے مختلف سمتوں کا رخ کرتے دکھائی دیتے ،کیکر کی بڑی بڑی جھاڑیوں کی وجہ سے یہ راستے بھول بھلیوں کا روپ دھار لیتے، جیپ ڈرائیور چوڑیو جانے والی راہ سے واقف تھا اس لئے بھٹکتا نہ تھا۔ بڑی خوش اسلوبی سے ان بھول بھلیوں سے نکل جاتا۔
راستے میں ایک جگہ بائیں طرف کچھ ہی دوری پر ایک چھوٹے سے ڈیم کا پختہ بند نظر آیا تو میں نے ڈرائیور سے واپسی میں اس ڈیم کی طرف لے چلنے کی بات کر لی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ یہ تو بہت ہی چھوٹا سا ڈیم ہے جس میں پانی بھی برائے نام ہی ہوگا، بہت جلد ہم اسی راہ پر موجوداس علاقے کے مشہور و معروف اور خاصے بڑے رن پور ڈیم کے قریب سے گزریں گے۔ کچھ ہی دیر میں ہمیں دائیں طرف ڈیم اور اس کے کچھ بلند بند پردرختوں کا جھنڈ دکھائی دیا۔ ہم نے اپنا سفر جاری رکھا کہ رن پور بند بھی چوڑیو سےواپسی کے سفر کے دوران ہی دیکھیں گے۔ 
    گھومتی پھرتی راہ ریتیلےمیدانوں ،ادھر ادھر نکلتے کچے راستوں کی بھول بھلیوں ،کھیت کھلیانوں اور کبھی کبھار انتہائی مختصر سی آبادیوں کے قریب سے گزرتی چوڑیو کی طرف بڑھتی رہی۔ یہ تو ہمیں پتہ ہی تھا کہ چوڑیو گائوں کے قریب چند پہاڑیاں ہیں اور ایک بلند پہاڑی پرنگرپارکر کا ایک مشہورقدیم مندر بھی ہے، ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ چوڑیو گائوں میں صرف ہندو ہی آباد ہیں۔
   ہمسفر جیپ کے عقبی حصے میں بیٹھی تھی۔اس طویل سفر کے دوران میں زیادہ تر جیپ ڈرائیور عبدالواحد سے مصروف گفتگو رہتا، کبھی کبھاربیک مرر سے ہمسفر کی جانب دیکھتا تو اندازہ ہوتا کہ وہ بار بار اونگھنے کی بھرپور کوشش کرتی تھی، جیپ کبھی اچھلتی کودتی تو آنکھیں کھول دیتی ،اچھل کود مختصر وقت کیلئے ہوتی تو چند لمحوں کے لئےادھر ادھر سر گھما کر دوبارہ آنکھیں موند لیتی، جیپ ذرا زیادہ دیر تک اچھلتی رہتی تو پوچھتی کہ ابھی کتنافاصلہ باقی ہے۔
   میں دور دور تک نظر آتے وسیع میدانوں اور جھاڑیوں سے پرے دکھائی دیتے آسمان اور زمین کے ملاپ پر چوڑیو کی پہاڑیوں کو پہلی کے چاند کی طرح بغور گہری نظر سے تلاش کرتا تھا۔ 9 بجے کے بعد بالآخر مجھے دور سے وہ پہاڑیاں دکھائی دے ہی گئیں۔ سوا 9 بجے کے قریب ہم چوڑیو گائوں کی آبادی کے درمیان سے گزرتے راستے سے ہوتے ہوئے ان پہاڑیوں کے عین سامنے پہنچ گئے۔ 
انتہائی ہموار اور وسیع و عریض میدانوں کے درمیان بڑے بڑے سرخی مائل بھورے پتھروں کی چٹانیں قدرت نے اس خوبصورتی اور سلیقے سے سجا رکھی تھیں کہ ہم حیرت سے ان حسین نظاروں کو تکتے تھے۔ چٹانوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ نوکیلی نہ تھیں، بہت ہمواراورخوبصورت گولائی لئے ہوئے تھیں۔ سیمنٹ سے بنائے گئے پختہ اور کشادہ زینے دائیں طرف موجود پہاڑی پر موجود مندر تک جاتے تھے۔ جیپ سے اترے تو ان زینوں کے قریب ہی میدان میں موجود چند بچے صبح صبح یہاں پہنچنے والے دو یاتریوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھنے لگے۔ ہم نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری خواہش کے مطابق بخیر و خوبی ہمیں چوڑیو تک پہنچا دیا۔

   اوپر جانے والے زینے زیادہ اونچے اور دشوار نہ تھے اس لئے ہم بآسانی چڑھتے چلے گئے۔مندر کی دیکھ بھال کرنے والا اکلوتا شخص کچھ بلندی پر موجود زینوں کی صفائی میں مصروف تھا۔ اس نے مسکرا کر ہمارا استقبال کیا اور پھر ہمارے ساتھ ہی اس نے بھی مزید بلندی کی طرف چڑھتے زینوں کا رخ کیا۔ مندر کے رکھوالے نے ہمیں بتایا کہ اوپر تک جانے والے ان زینوں کی تعداد 170 ہے۔ 
    بالکل اوپر پہنچے تو چھوٹے سے ہموار میدان کے دائیں طرف ایک عظیم الشان چٹان ایسے محیر العقول انداز سے ایک جانب ٹکی تھی کہ اس کے عین نیچے بڑے سے خلا میں ایک چھوٹا سا چبوترا اور اس سے بالکل ملحق بڑے سے غار نما خلا میں مندر بنا تھا۔ یہ عظیم الشان چٹان مندر پر سایہ فگن تھی ۔ مندر کے داخلی دروازے کے ساتھ شیروں کے دو مجسمے موجود تھے جبکہ اندرونی حصے میں مختلف مورتیاں اپنے پجاریوں کے انتظار میں بیٹھی دروازے کی طرف تکتی تھیں۔ ہموار میدان کے بائیں طرف دور دراز سے آنے والے یاتریوں کی رہائش کیلئے دو بڑے بڑے ہال موجود تھے جن کے دوسری طرف بنی گیلری سے اس بلند پہاڑی کے دوسری جانب موجود دوسری پہاڑی دکھائی دیتی تھی۔ 






    جہاں ہم کھڑے تھے وہاں سے مشرق کی طرف نشیب میں دور تک ہموار میدان اور اس میں جا بجا اگی چھوٹی بڑی جھاڑیاں نظر آتی تھیں ۔ میدان سے مزید پرے مشرق کی سمت پاک بھارت سرحد کی باڑھ اور بھارت کی حدود میں واقع سرحدی چوکیاں بھی دھندلی دھندلی دکھائی دیتی تھیں۔ اس پہاڑی سے جنوب مشرق کی طرف بھارت کی سرحد 2 کلومیٹر سے بھی کچھ کم کی دوری پر واقع تھی ، بالکل مشرق کی طرف بمشکل 5 ،جبکہ شمال کی سمت صرف4 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود تھی۔ یہاں سےجنوب اور مشرق میں بھارت کا صوبہ گجرات جبکہ شمال میں سرحد پار بھارت کا راجستھان کا علاقہ واقع ہے۔
   مندر کے بالکل برابر سے ایک تنگ سا زینہ مندر کے اوپر دکھائی دیتی چٹانوں تک جاتا تھا۔ ہم پہاڑی کے چاروں اطراف بکھرے مناظر سے لطف اندوز ہونے کیلئے ان زینوں کی طرف بڑھ گئے۔ مندر کا رکھوالا راستہ دکھانے کیلئے ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔ پہاڑ کی چوٹی کی طرف جانے کیلئے ہمیں اوپر موجود چٹانوں پر بھی چڑھنا پڑا ۔ چٹانوں کی صاف ستھری ،کم خطرناک اور ہموار سطح کی وجہ سے زیادہ دقت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ بلندی سے ہم مشرق،جنوب اور شمال کی سمت دور دور تک پھیلے میدان ، ان میں موجود جھاڑیوں کو چرتی گائیں ،اور میدانوں سے دور پرے سردیوں کی مخصوص دھند میں چھپی بھارتی سرحد کو دیکھتے تھے۔ مغرب میں مزید کچھ بلندی پر موجود پہاڑی کی عین چوٹی پر موجود چٹان پر مندر کا بڑا سا نارنجی جھنڈا لہراتا تھا۔ میں چوکنے والا کب تھا ، مغربی سمت کا بھی بھرپور نظارہ کرنے کیلئے میں اس آخری بلند چٹان پر چڑھ کر پہاڑی کی چوٹی اور جھنڈے تک جا پہنچا۔










اس مقام سے مغرب کی طرف پہاڑی کے دامن میں موجود چوڑیو گائوں کا خوبصورت منظر میرے سامنے تھا۔ نشیب میں زینوں کے اختتام کے پاس میدان میں کھڑی جیپ چھوٹے سے کھلونے کی مانند نظر آرہی تھی۔کچھ دیر ان بلند چٹانوں میں گزارنے کے بعد ہم نیچے اترے ، مندر کے رکھوالے نے بتایا کہ دو دن قبل سپر مون کی شب یہاں بڑا میلہ لگا تھا۔ 
    مندر کے بالکل سامنے بنے ہال کے دوسری طرف موجود گیلری سے ہم نےدوسری طرف واقع پہاڑی کو قریب سے دیکھا۔ساڑھے 9 بجے کے بعد ہم پہاڑی سے اتر کرواپس جیپ تک پہنچ گئے۔













     ایک گھنٹے سے قبل ہی ہم رن پور ڈیم پر موجود تھے۔ ڈیم مکمل طور پر لبریز تو نہ تھا لیکن پھر بھی اس میں پانی کا اچھا خاصا ذخیرہ محفوظ تھا۔ درختوں کا جھنڈ دراصل ڈیم کے بند پر بنا ایک پارک تھا جس کی چاردیواری میں ویرانی کا راج تھا۔چار دیواری کے ساتھ لگائے گئے درختوں کی قطار اور سامنے نشیب میں جھلملاتا ڈیم کا پانی اس ویرانے کی واحد رونق اور حسن تھے۔ 
   میں سوچتا تھا کہ نگرپارکر میں تعمیر کردہ یہ چھوٹے چھوٹے بارانی ڈیم درحقیقت اس عظیم صحرا کیلئے سونے کی کانوں سے بھی بڑھ کر قیمتی ہیں جہاں کارونجھر کے پہاڑوں سے اترتے چند چشمے اور ساون کے موسم میں پہاڑی ندی نالے اس بہتے ہوئے سونے کو ان ڈیموں میں ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ اس قیمتی اور انمول پانی کا ایک ایک قطرہ تھر کے باسیوں ،ان کے مویشیوں اور فصلوں کیلئےکس قدر اہم ہے ، کل تھرمیں داخل ہونے سے لے کر اب تک کے سفر میں ہم یہی کچھ دیکھتے چلے آئے تھے۔
   درحقیقت رن ڈیم میں موجود پانی کے اس ذخیرے کی بنا پر ہی ہمیں نگرپارکر سے چوڑیو کے گائوں تک کے سفر کے دوران ان بے آب و گیاہ میدانوں میں پیاز ، باجرے اور چند دیگر فصلوں کی کچھ بہار نظر آتی تھی ۔ کچھ وقت ڈیم کنارے بتا کر ہم پونے 11 بجے کے قریب یہاں سے نگر پارکر کی طرف روانہ ہو گئے۔
   نگر پارکر کے قریب    پہنچے توجھونپڑی نما گھروں پر مشتمل  ایک چھوٹے سے  گائوں کے پاس پختہ عمارت کی تعمیر کا کام جاری تھا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ یہاں اسکول بن رہا ہے۔ سندھ کے ان پسماندہ  علاقوں  کی ترقی اورمعصوم بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے  ان کی تعلیم و تربیت     کا انتظام بلاشبہ بہت مستحسن اور ضروری  اقدام ہے۔ چوڑیو کے سفر کے دوران  پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے بنائے گئے چھوٹے چھوٹے ڈیمز دیکھ کر جو خوشی ہوئی تھی وہ نگرپارکر کے بیابانوں میں بسنے والے بچوں کیلئے اسکول کی اس عمارت کی تعمیر کو دیکھ کر دوبالا ہوگئی۔

چوڑیو گائوں سے رن پور ڈیم  کے سفر کے دوران بیابان میں سجا خوبصورت درخت ۔۔۔








   ارادہ تھا کہ نگر پارکر پہنچ کر اپنی گاڑی میں کارونجھر کے سلسلہ کوہ کی جانب جاتی راہ کا رخ کریں گے  لیکن پھر خیال آیا کہ نہ جانے راستہ کس قدر دشوار ہو،چوڑیو جانے والی راہ پر خاصی  بھول بھلیاں دیکھی تھیں،یہ خدشہ بھی تھا کہ کہیں بھٹک ہی نہ جائیں،  چنانچہ جیپ ڈرائیور سے ہی درخواست کی ہمیں کارونجھر کے دامن تک لے چلے،اس اضافی خدمت کے عوض اس نے کچھ اضافی کرایہ طلب کیا  جس کیلئے ہم بخوشی راضی ہو گئے۔ 
   کارونجھرکا سلسلہ کوہ کہ سندھی زبان میں جس کا مطلب کالی دھاریوں والے پہاڑ ہے،نگرپارکر کے جنوب مغرب کی طرف پھیلے ہوئے ہیں۔مشرقی سمت میں واقع چوڑیو سے پلٹ کر ہم نگرپارکر پہنچے اور قصبے کے درمیان سے ہوتے ہوئے مغرب  کا  رخ کرنے والی سردھارو  روڈ میں داخل ہو گئے۔بمشکل نصف کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ سڑک کارونجھر کے قدموں میں جا پہنچی۔

    صبح صبح ہم نگرپارکر کے مشرق میں ریتیلے میدانوں میں سفر کرتے تھے ،اب صبح دوپہر میں بدلتی تھی  اورہم نگرپارکر کے مغرب میں کارونجھر کے پہاڑی دروں میں گھومتی اور اوپر کو چڑھتی راہ پررواں دواں  تھے۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اچانک پاکستان کے شمالی علاقوں میں آ نکلے ہوں۔دو  تین کلومیٹر تک یہ نیم پختہ سڑک  پہاڑی دروں میں  بل کھاتی اورچکراتی آگے بڑھتی رہی۔پھر ایک خاصے بلند درے کی چڑھائی چڑھ کر اچانک انتہائی نشیب کی طرف اترنا شروع ہوئی۔سڑک خاصی کشادہ تھی  اور زیادہ خستہ حال  بھی نہ تھی  لیکن اس بلند درے پر پتھریلی چٹانوں والے پہاڑوں  کے ساتھ ساتھ کچھ ریتیلے پہاڑ بھی  موجود تھے۔ سڑک کا اتار تو زیادہ تھا  ہی، اس پر اچھی خاصی ریت بھی بکھری پڑی تھی۔ہم اپنی گاڑی میں آتے تو کسی طور سنبھل کر اتر تو جاتے لیکن  واپسی میں اس ریتیلی سڑک پر اتنی کٹھن چڑھائی چڑھنا  شایدممکن نہ ہوتا۔ویسے بھی بے چاری مہران 2014 اور پھر 2015 میں خنجراب ،بابوسر ،اسکردو اور استور کی مشکل چڑھائیاں چڑھ آئی تھی ۔اس سال کے آغاز میں گوادر کے سفرکے دوران بلوچستان کے بلند پہاڑی درے بھی عبور کر چکی تھی۔  اچھا ہی کیا ہم نے کارونجھر کے اس پہاڑی درے میں اسے ایک بار پھرمشکل میں ڈالنے کے بجائے  ریسٹ ہائوس کی پرسکون پارکنگ میں لمبا آرام کرنے کیلئے چھوڑ دیا تھا۔


    سڑک نیچے اتر کر تقریباً ایک کلومیٹر بعدپہاڑوں کے دامن میں بنے سردھارو کے مندر کے پاس ختم ہو گئی۔ ڈرائیور نےجیپ سڑک کے اختتام پر موجود چھوٹے سے پارکنگ ایریا میں کھڑی کردی۔یہاں سڑک کنارے   گتے کے مختلف قسم کےچھوٹےچھوٹے ڈبوں  کے ساتھ ساتھ اچھا خاصا کچرا دکھائی دیا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ دو دن قبل چودھویں کے چاند کی شب یہاں بھی میلے کے دوران بھرپور رونق کا سماں تھا۔ 
   ہم مزید نشیب کی طرف  جاتی راہ سے اتر کربالکل سامنے نظر آتے  پہاڑوں سے نیچے آتی خشک ندی کے کنارے بنے مندر کے قریب جا پہنچے۔یہ ایک برساتی ندی تھی جو صرف بارشوں میں ہی کارونجھر کے پہاڑوں میں گنگناتی اور جلترنگ بجاتی تھی۔ دائیں جانب سےبھی ایک تنگ  پہاڑی نالہ  نیچے اترتا تھا جو اس وقت بالکل خشک تھا۔البتہ جس جگہ یہ پہاڑی نالہ اترتا تھا وہاں ایک چھوٹے سے تالاب میں کچھ پانی موجود تھا۔ پانی کی رنگت اور حالت بتاتی تھی کہ وہ کئی ماہ پرانا ہے۔ میلے کے دوران اس خوبصورت مقام پر پھیلائے گئے کچرے میں سے کچھ حصہ اس سیاہی مائل  گدلے پانی کے تالاب کو بھی ملا تھا۔ چوڑیو کے مندر میں تو ایک رکھوالا مسلسل صفائی میں جتا نظر آیا تھا ، یہاں ایسا کوئی رکھوالا دکھائی نہ دیتا تھا۔ تالاب کو دیکھ کر مجھے کھیوڑہ سے کلر کہار جانے والی سڑک کنارے موجود کٹاس راج کی چھوٹی سی جھیل کی  یاد آگئی کہ سردھارو کے اس  تالاب اورکٹاس راج کی جھیل میں خاصی مماثلت  نظر آتی تھی۔
   تالاب کے ساتھ ہی بنی  چند سیڑھیاں  چڑھ کر ہم کچھ بلندی پر واقع چھوٹے سے مندر کے پاس پہنچے ۔مندر کے بالکل سامنے سے ایک تنگ اور کچا راستہ مزید اونچائی پر دکھائی دیتےٹیلے پر جاتا تھا۔ دوپہر ہو چلی تھی ،گو کہ گرمی بالکل نہیں تھی لیکن سورج کی تمازت ہمیں کچھ تپاتی تھی۔ ٹیلے پر ایک چھوٹا سا خوبصورت  درخت موجود تھاجس  کی چھائوں میں ہم نے کچھ دیر آرام کیا۔یہاں سےایک راستہ گھومتا ہواکچھ ہی فاصلے پر دکھائی دیتے ایک اور کچھ زیادہ بلند ٹیلے کو جاتا تھا۔ہمسفر کو درخت کی چھائوں تلے بیٹھا چھوڑ کر میں نے ادھر کا رخ کیا۔اس بلند ٹیلے سے چاروں طرف بکھرے کارونجھر کے پہاڑوں کے دلکش مناظر میرے سامنے تھے۔میں نے وہیں سے ہمسفر کو ادھر آنے کا اشارہ کر دیا۔







   کل شام جب ہم ماروی کی قیام گاہ سے نکل رہے تھے تو  سفید شلوار قمیض میں ملبوس چند نئے ملاقاتی اس سے ملنے کیلئے اندر داخل ہورہے تھے،ان کی دو گاڑیاں ہمیں چار دیواری کے پاس کھڑی نظر آئی تھیں۔ پھر مغرب سے کچھ قبل جب ہم بھودیسر کی مسجد کے پاس پہنچے تو وہی لوگ مسجد دیکھنے کے بعد اپنی گاڑیوں میں سوار واپس مڑ رہے تھے۔ آج سردھارو کے اس بلند ٹیلے پر وہی چار پانچ سفید پوش  ایک بار پھر اچانک ہمیں دکھائی دئیے۔کل کی دونوں بار ہمارا اور ان کا دور سے ہی مختصر سا آمنا سامنا ہوا تھا۔آج روبرو ہوئے تو سلام دعا ہوئی۔ ان میں سے ایک صاحب مٹھی میں سرکاری افسر تھے ۔ کراچی کے بارونق شہر سے نکل کر سندھ کے انتہائی  مشرق میں واقع کارونجھر کے پہاڑی دروں میں  ہمیں گھومتا پھرتا دیکھ کر وہ بہت حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔














دوپہر کے ٹھیک 12 بجے ہم یہاں سے واپس روانہ ہوئے اور 15 منٹ  سے قبل  ہی  قصبے کی حدود میں داخل ہو گئے۔
 راستے میں  ایک قدیم جین مندر کے پاس کچھ دیر کیلئے رکے اور پھر ریسٹ ہائوس پہنچ گئے۔




نگرپارکر کے بازار میں ایک دکان ۔۔۔

جیپ ڈرائیور عبدالواحد اپنے مسافر عبدالوحید کے ہمراہ ۔۔۔

   کل شام سے آج دوپہر تک جن سفید پوشوں سےمختلف مقامات پر 3 بار آمنا سامنا ہوا تھا ان سے چوتھی بار ریسٹ ہائوس میں ملاقات ہوئی کہ ہمارے یہاں پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد وہ بھی اپنی گاڑیوں میں یہاں وارد ہو گئے تھے۔ 
   اسلام کوٹ میں مقیم دوست سے طے پایا تھا کہ ہم نگرپارکر سے سہ پہر کے بعد ایسے وقت نکلیں کہ مغرب تک اسلام کوٹ پہنچ جائیں۔ ادھر ابھی ساڑھے 12 ہی بجے تھے۔ کل شام کو بھودیسر مسجد پہنچے تھے تو مغرب ہوا چاہتی تھی اور قریب ہی موجود ڈیم تک نہ جاسکے تھے۔ آدھا گھنٹہ آرام کرنے کے بعد ہم نے اپنا سامان سمیٹا ، کمرہ خالی کیا   اورنگرپارکر کے ریسٹ ہائوس سے بھودیسر  ڈیم  کے لئےروانہ ہو گئے۔

ریسٹ ہائوس کی چھت سے نگرپارکر کی کچھ تصویریں ۔۔۔





نگرپارکر کےریسٹ ہائوس سے روانگی کے وقت ۔۔۔



   قصبے سے نکلےہی تھے کہ بائیں طرف کچھ فاصلے پر دکھائی دیتی گرینائٹ کی سرخ چٹانوں نے ہمیں پکارا۔ان کی پکار میں  کچھ شکوہ تھاکہ ہم سے ملے بنا نگرپارکر سے رخصت ہوتے ہو ۔سڑک کنارے ایک درخت کی چھائوں میں گاڑی روکی۔مختصر سے ریتیلے میدان میں موجود خاردار جھاڑیوں کے درمیان سے اور ایک خشک برساتی نالے کو عبور کرکے ہم ان سے ملاقات کیلئے پہنچ گئے۔ یہ سرخ چٹانیں ، ان کی قدرتی ساخت اور تراش خراش بہت منفرد اورانتہائی خوبصورت تھی۔



    وادی ہنزہ میں ایگل نیسٹ گئے تھے توقراقرم کے بلند پہاڑوں پر پتھروں کا بڑا سا عقاب بیٹھا تھا۔یہاں نگرپارکر کے ریتیلے میدانوں میں سجی سرخ پہاڑیوں میں ایک بڑا سا چٹانی عقاب باقاعدہ کھڑے ہو کرہمیں دیکھتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ قدرت کے ہاتھوں تراشیدہ ایسے بے مثال عقاب کبھی ہمیں بڑے بڑے شہروں میں پائے جانے والےحکمرانوں کے محلوں کے برجوں میں کیوں  نظر نہیں آئے ؟ 
میرے بالکل سر کے پاس کھڑا سرخ عقاب مسکرایا اور گویا ہوا۔
 " ہمارا نشیمن قصرسلطانی کے گنبد نہیں ، ہم پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرتے ہیں، پھر کبھی قراقرم کے پہاڑوں کا رخ کرو تو وادی ہنزہ کی چٹانوں میں قیام پذیر میرے دوست تک میرا سلام پہنچا دینا۔"
   کچھ وقت ہم نے ان خوبصورت سرخ پہاڑیوں اور عقاب کے ساتھ گزارا اور پھر ان سے اجازت چاہی۔












    کچھ ہی دیر میں ہم دوبارہ بھودیسرکی تاریخی مسجد پہنچ گئے۔ گاڑی مسجد کے سامنے سڑک کنارے موجود چھوٹی سی کچی اور ہموار جگہ پر کھڑی کی۔ کچھ دیر بعد مسجد سے نکلے اور اس کے بالکل ساتھ سے ہی ڈیم کو جانے والے کچے راستے پر پیدل روانہ ہوئے ۔ 




    ڈیم مسجد سے بمشکل چوتھائی کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ رن پور ڈیم کی بہ نسبت اس میں پانی تو کم تھا لیکن اس کی دلکشی اس سے زیادہ تھی۔
دور عقب میں دکھائی دیتے کارونجھر کے پہاڑ،پھر ڈیم میں موجود پانی کے ذخیرے کے ساتھ ساتھ نظر آتے سرسبز میدان ،ان میں گھاس چرتی بھیڑ بکریاں اور گائیں منظر کے حسن کو چار چاند لگاتی تھیں، بس تیز چمکیلی دھوپ کی تپش ہمیں کچھ ستاتی تھی۔



   ڈیم کے بند کے اوپر کچھ ہی فاصلے پر کھڑے دو سفیدبیل اپنی بڑی بڑی سرمگیں آنکھوں سے ہمیں دیکھتے تھے۔ میں نے قریب جا کر ان سے سلام دعا کی۔ دور پرے نظر آتے کارونجھر کے پہاڑوں کو الوداع کہا اور دوبارہ مسجد کے پاس کھڑی گاڑی کی طرف پلٹ آئے۔
    کل شام جب نگرپارکر میں داخل ہوئے تھے تب بھی سب سے پہلے اسی تاریخی مسجد کے سامنے پہنچے تھے ، آج نگرپارکر سے روانہ ہوتے تھے تو پھر مسجد ہمارے سامنے تھی۔ میں نے ایک نظر مسجد پر ڈالی ، نظریں آسمان کی طرف اٹھا ئیں،    رب وحدہ لا شریک لہ اور مالک السمٰوات والارض کا شکر ادا کیا کہ جس نے ہمیں سندھ کے اس دورافتادہ علاقے کی بھرپور سیر وتفریح کا موقع فراہم کیا اور نگرپارکر سے رخصت ہوئے۔



    صبح ناشتے کے بعد چوڑیو گائوں گئے، واپسی میں رن پور ڈیم پر رکے، پھر کارونجھر کے پہاڑوں کے دامن میں جاپہنچے، وہاں سے پلٹے تو جین مندر دیکھتے ہوئے ریسٹ ہائوس پہنچے، ایک بجے ریسٹ ہائوس سے نکلے توگرینائٹ کی سرخ پہاڑیوں اور شاہین سے ملنے چلے گئے،ان سے ملاقات کے بعد بھودیسر مسجد کیلئے روانہ ہوئے ،وہاں سے ڈیم کی طرف نکل گئے۔ اب نگرپارکر کی حدود سے باہر آچکے تھے لیکن گھڑی کی سوئیاں ابھی دوپہر کے 2 ہی بجارہی تھیں۔اپنے دوست کو سورج غروب ہونے تک اسلام کوٹ پہنچنے کا کہا تھا جبکہ ابھی مغرب میں کم از کم ساڑھے 3 گھنٹے باقی تھے۔  
کچھ فاصلہ طے کیا تو  تنگ سڑک اچانک ائرپورٹ کے رن وے کی طرح انتہائی کشادہ ہو گئی لیکن بمشکل نصف کلومیٹر بعد دوبارہ اپنی اصلی ہیئت میں واپس آگئی۔
   تھوڑی ہی دیر میں رینجرز کی چوکی پر پہنچ گئے،اہلکاروں کو نگرپارکر سے اپنی واپسی کی اطلاع دیتے ہوئے آگے روانہ ہوئے۔ایک بار پھر خستہ حال اور ٹوٹی پھوٹی سڑک پر پندرہ ،بیس کلومیٹر کا سفر سست رفتاری سے طے ہوا۔ 
    کل نگرپارکر کی طرف آتے ہوئے سڑک کنارے اگی  مختلف قسم کی رنگ برنگی جھاڑیاں اور پودے بہت بھلے  دکھائی دئیے تھے لیکن کل ہمیں اپنی منزل تک پہنچنے کی جلدی تھی  اس لئے کہیں بھی رک کر کوئی تصویر نہ لے سکے تھے، دور تک پھیلے میدانوں اور ریت کے ٹیلوں پرمختلف انواع و اقسام اور رنگوں کے پودے اور جھاڑیاں سجی نظر آتی تھیں۔آج  ہمارے پاس وقت کی فراوانی تھی۔ ایک جگہ سڑک کے ساتھ سفید اور سبز جھاڑیاں ایک دوجے کے ساتھ کھڑی ہمیں تکتی تھیں ۔گاڑی  سڑک کنارے کھڑی کرکے ہم نے کچھ وقت ان کی قربت میں گزارا۔





    دوپہر سہ پہر میں بدلتی تھی۔ صبح ناشتہ بہت جلدی کر لیا تھا اس لئے بھوک بھی چپکے چپکے بیدار ہوتی تھی۔سوا 3 بجے کے قریب سڑک کنارے ایک چھوٹے سے ہوٹل پر رکے۔کچھ بسکٹ ہمارے پاس تھے ،کچھ ہوٹل والے سے لئے اور سڑک کنارے درخت کی چھائوں میں بچھی چارپائی پر براجمان ہو گئے۔ہوٹل والے سے کھانے کے لئےکسی ڈش کا پتہ کرنے کے بجائےصرف چائےلانے کا کہہ دیا۔سورج آہستہ آہستہ مغرب کی طرف ڈھلنا شروع ہو گیا تھا، اس لئے دھوپ کی تمازت دم توڑتی تھی۔



    تقریباً آدھا گھنٹہ یہاں گزارنے کے بعد آگے روانہ ہونے لگے تو ایک بوڑھی تھری خاتون ایک چھوٹی بچی کو گود میں لئے ہمارے قریب آئی،اس کے ہمراہ سر پر کپڑوں کی گٹھری لادے چار پانچ سال کی ایک اورمعصوم بچی بھی تھی۔ ملی جلی ٹوٹی پھوٹی اردو اور تھری زبان میں اس نے ہمیں بتایا کہ ان کو جس ٹیکسی ( اس علاقے میں چلنے والے چنگچی رکشوں اور جیپوں کو عموماً یہاں ٹیکسی ہی کہا جاتا ہے) میں جانا تھا وہ نکل گئی ہے۔ ہم کو یہاں سےایک دو اسٹاپ آگے تک جانا ہے۔ گاڑی میں پیچھے جگہ تو تھی ہی، سو انہیں ساتھ لے لیا۔ تقریباً دو تین کلومیٹر کے بعد ایک اسٹاپ پر وہ اتر گئے۔ بوڑھی خاتون شکریہ تو ادا نہ کرپائی لیکن اس کی آنکھوں سے چھلکتا جذبہ تشکر ہمیں صاف دکھائی دیا۔
    ابھی 4 ہی بجے تھے کہ ہم اس تنگ سڑک کے اختتام پر اسلام کوٹ سے تھرکول فیلڈ کی طرف مڑتی شاندار شاہراہ پر واقع سہ راہے پر پہنچ گئے۔تھرکول فیلڈ یہاں سے دائیں طرف صرف 13 کلومیٹر کی دوری پرتھی۔مغرب میں ابھی خاصا وقت باقی تھا، صحرائے تھر میں پائے جانے والے سیاہ سونے کے ان ذخائر کی ایک جھلک  دیکھنے  کی خواہش  نے سر ابھارا، اسلام کوٹ  جانے کے بجائے میں نے دائیں طرف گاڑی موڑ دی۔اونچے نیچے ریت کے ٹیلوں کے درمیان بچھی شاہراہ آگے بڑھی تو  کبھی ایسا لگتا کہ جیسے ہم کلرکہار اور اسلام آباد کے درمیان  موٹروے پروادی سون  میں سفر کررہے ہوں ۔کبھی کسی اتار سے دور دکھائی دیتے صحرائے تھر کے ٹیلے سبز جھاڑیوں اور درختوں کا لبادہ اوڑھ لیتے تو ہم خود کواسلام آباد کی مرگلہ پہاڑیوں میں گھومتا پھرتا محسوس کرتے۔کل کارونجھر کے دامن میں تھے تو لگتا تھا کہ پاکستان کے شمالی علاقے سندھ کے جنوب مشرق میں آ بسے ہوں۔کہیں سیاہ دھاریوں والے پہاڑ تو کہیں  انتہائی خوبصور ت تراش خراش  والی  سرخ  چٹانیں،  کبھی میلوں تک پھیلے ہموار میدان  تو کہیں سنہری  ریت کے بلند ٹیلے،کہیں چھوٹے چھوٹے ڈیموں میں  چمکتےپانی کے ذخیرے اور اس سے سیراب ہوتی کھیتیاں تو کہیں  لق و دق صحرا میں زندہ رہنے کیلئے پینے کے پانی کی تلاش میں سرگرداں تھر کے باسی ،کہیں مندروں میں بجتی گھنٹیاں تو کہیں مسجد کے لائوڈ اسپیکر سے بلند ہوتی اذانوں کی صدائیں،  بلاشبہ اس عظیم  صحرا میں قدرت کے بےحساب اور  دلکش رنگوں  کی ایک دنیا آباد تھی۔سندھ کے معروف شاعر شیخ ایاز نے اس عظیم صحرا کو فطرت کا عجائب گھر کہا تھا تو بالکل درست کہا تھا۔ حال ہی میں صحرا کی سنہری ریت تلے مدفون سیاہ سونے کے ذخائر کی عظیم دریافت تھر باسیوں  کے مستقبل کو کس حد تک خوشحال اور تابناک بناتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا،فی الوقت تو  کوئلے کے ان ذخائر تک آسانی سےرسائی کیلئے بچھائی گئی یہ شاندار شاہراہ بھی ان صحرا نشینوں کیلئے کسی عظیم نعمت سے کم نہ تھی۔
    بہترین سڑک پر ہم آگے بڑھتے تھے کہ اچانک  میرے کانوں  نے  کسی کی سرگوشی سنی،گاڑی اس وقت سڑک کے دونوں اطراف موجود سنہری ریت کے بلند ٹیلوں کے درمیان سے گزر رہی تھی، میں نے رفتار دھیمی کی،شاہراہ کے دونوں اطراف سر گھما کر دیکھا، ہمسفر حیرت  زدہ تھی کہ اچانک  مجھے کیا ہوا۔سرگوشی صرف میں نے ہی سنی تھی،رفتار دھیمی کی سرگوشی کرنے والا  دکھائی دے گیا۔ میں نے بھی  انتہائی خاموشی سےاس کی سرگوشی کا جواب سرگوشی سے ہی دےدیا۔سرگوشی کرنے والا مسکرادیا۔ہمسفر نہ کچھ سن سکی ،نہ سمجھ سکی۔
    سامنے سڑک نشیب میں اترتی تھی۔میں نے صرف بریک سے پیر ہٹایا، نیچے اترتی سڑک نے رفتار خود بڑھا دی۔کچھ دیر میں ایک بیریئر سے گزر کر ہم بائیں طرف سڑک کنارے بنی تھر کول فیلڈ کے بڑے سے دفتر  کی خوبصورت اورپختہ عمارت میں پہنچ گئے۔پتہ چلا کہ کوئلے کی کانیں یہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں لیکن بنا اجازت نامے کے وہاں جانا ممکن نہیں ۔دوسری اہم بات یہ کہ سیاہ سونے کے ذخائر تک جانا اتنا آسان بھی نہیں کہ ہم اپنی مہران میں وہاں پہنچ جائیں ،اونچی نیچی کچی راہ پر سفر کیلئے  فور وہیل ڈرائیو  یعنی جیپ کا ہونا ضروری ہے۔ نہ ہمارے پاس اجازت نامہ تھا اور نہ جیپ ،سونے کے خزانے کی تلاش   کی ہماری کوشش تو بے شک  ناکام ہوئی  لیکن اس راہ پر ہم بہت سے دلکش مناظر سےضرور لطف اندوز ہوئے۔یہاں سے پلٹے تو گھڑی ساڑھے 4 بجا رہی تھی ۔




   سورج  اب تیزی سے ڈھلتا تھا ، صحرائے تھر میں آہستہ آہستہ شام  اترتی تھی۔ ہم اسلام کوٹ کی طرف بڑھتے رہے۔ ایک جگہ شاہراہ اسی بلندی کو چڑھنا شروع ہوئی  جہاں میرے کانوں میں سرگوشی کرنے والا ہمارا منتظر تھا۔ بلندی پر پہنچ کر میں نے سڑک کنارے گاڑی روک دی۔ ہمسفر ایک بار پھر حیرت سے مجھے دیکھتی تھی۔


 ہمسفر اور میرا سایہ ایک ساتھ ۔۔۔

 میں اور ہمسفر کا سایہ ایک ساتھ ۔۔۔


   سرگوشی کرنے والا  گاڑی کے بالکل بائیں طرف موجود تھا۔
"تھر میں آئے ہو، جانتے نہیں کہ تھر کا اصل سونا تو میری چمکتی اور سنہری ریت ہے۔ اس صحرا میں گزرنے والی آج کی شام کیا تم میرے نام نہیں کر سکتے ؟"
یہ وہ سرگوشی تھی جو یہاں سے گزرتے وقت ہمارے بائیں طرف ایک  بلند پہاڑی نما انتہائی صاف ستھری سنہری ریت کے ٹیلے نے  میرے کانوں میں کی تھی۔
" سورج کو تھوڑا اور ڈھل جانے دو ، آج کی یہ شام ہم تمہارے سنگ ہی بتائینگے"
سرگوشی کا جواب میں نے بھی سرگوشی کی صورت ہی دیا تھا۔
    بلند اورخوبصورت سنہری ٹیلے پر صرف اکا دکا جھاڑیاں موجود تھیں۔سورج ٹیلے کی چوٹی کے پاس چمکتا تھا اور اپنا مکھڑا ریت کے نقاب میں چھپانے ہی والا تھا۔ تیزی سے ڈھلتے سورج کی سنہری کرنیں ہولے ہولے سرسراتی  ہوا کے ہاتھوں تخلیق کردہ  ٹیلے کی سنہری ریت کی حسین لہروں پر اس زاویے  سے پڑرہی تھیں کہ ہم  دور ٹیلے کے اوپر تک بکھری دلکشی میں کھو سے گئے۔
   جوتے سڑک کنارے اتار کر ہمسفر کے ہمراہ میں نے ریت پر قدم رکھا تو سورج کچھ مزید نیچے سرک گیا ، اوپر کی طرف جاتی سنہری ریت پر ٹیلے کی بلندی نے اپنا سایہ کر لیا۔ریت میں ٹیلے کی محبت اور چاہت کے ساتھ ساتھ انتہائی خوشگوار ٹھنڈک  بھی رچی بسی تھی۔اس کی چاہت کی کشش ہمیں اوپر کھینچتی گئی اور ہم کھنچتے چلے گئے۔ نصف سے زائد بلندی طے کر کے ہم کچھ دیر کیلئے ٹھنڈی ریت پر بیٹھ گئے۔







    دور نشیب میں  شاندار شاہراہ ایک سیاہ لکیر کی صورت اور ہماری گاڑی ایک کھلونےکی طرح دکھائی دیتی تھی۔ڈھلتے سورج کی سنہری کرنوں  اوراس خوبصورت ٹیلے کی محبت ،ٹھنڈک اور سکون بھری سنہری ریت  پر تھر کے ریگزار میں گزرنے والی  یہ سنہری  شام بہت مدھر اورمسحورکن تھی۔













    بلند سنہری ٹیلےکو الوداع کہہ کر چلے تو سورج اس کی اوٹ سے نکل کر سامنے آگیا۔اسلام کوٹ قریب آیا تو موبائل کے سگنل بھی آنا شروع ہوئے۔راستے میں ایک جگہ ٹہر کر اپنے دوست کو فون کر کے اسلام کوٹ کے قریب پہنچنے کی خبر دی۔وہ سہ پہر سے مسسلسل ہم سے رابطہ کر نے کی کوشش کر رہے تھے، جبکہ ہم سہ پہرسے مغرب تک صحرا کے حسن بلاخیز میں گم مختلف جگہوں کی خاک چھانتے پھر رہے تھے، موبائل کے سگنل ہی نہ تھے ، سگنل ہوتے بھی تو ہمیں موبائل کی طرف دیکھنے کا ہوش ہی کہاں تھا۔ اس بار انہوں نے اسلام کوٹ میں کسی دوسرے گیسٹ ہائوس کا پتہ بتایا کہ جہاں ہمیں پہنچنا تھا۔
    ان سے بات کر کے موبائل کانوں سے ہٹایا ہی تھا کہ آنکھیں شاہراہ کے بائیں طرف ایک اچھوتے نظارے پر جم گئیں۔ 
مغرب کی طرف اترتا سورج ایک ٹیلے کے اوپر موجود جھاڑی کے درمیان قدرتی طور پربنے  دل نما دریچے سے ہمیں جھانکتا تھا۔یہ خوبصورت منظر کیمرے میں محفوظ کیا اور آگے بڑھے۔


   اسلام کوٹ کے قریب تر پہنچے تو غروب آفتاب کا وقت بالکل قریب آگیا۔ سڑک کے بائیں طرف دور دکھائی دیتے صحرائے تھرکے ٹیلوں میں سونے کی طرح چمکتا سورج خوبصورت نارنجی اورگلابی روپ دھارتا تھا۔آسمان اور ریگزاروں میں شام کے سائے گہرے ہوتے تھے۔ لمحہ بہ لمحہ حسین رنگوں میں ڈھلتے سورج کےغروب ہونے تک ہم سڑک کنارے کھڑے رہے۔ اسی دوران موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔ ہمارے دوست پھر کچھ پریشان تھےکہ ہم اب تک اسلام کوٹ کیوں نہ پہنچ پائے۔ میں نے جواب دیا ۔
" بھائی تاخیر میں ہمارا کوئی دوش نہیں، کیا کریں کہ تمہارے خوبصورت نگر کے رنگ جا بجا ہمیں اپنا اسیر بنالیتے ہیں۔"






     کچھ ہی دیر میں ہم اسلام کوٹ پہنچ گئے۔ گیسٹ ہائوس کے سامنے وہ ہمارے منتظر تھے۔ گیسٹ ہائوس کا نام سٹی گیٹ تھا ،ہمیں اس نام سے فوراً گلگت یاد آگیا کہ2014 اور 2015 کے دونوں سفروں کے دوران ایک ایک شب ہم نے اس  گیسٹ ہائوس  کےہم نام ہوٹل میں ہی قیام کیا تھا۔ 
    کل اسلام کوٹ پہنچے تھے تو ہمیں نگرپارکر پہنچنے کی جلدی تھی ،ہمارے دوست بھی مٹھی سے اسلام کوٹ پہنچے تھے، بہت مختصر ملاقات ہو پائی تھی۔ آج وہ ہمارے ساتھ کچھ دیر تک کمرے میں بیٹھے۔ گیسٹ ہائوس کے مالک سے بھی ملاقات ہوئی، پھر ہمارے دوست کے ایک عزیز ساتھی بھی ہم سے ملنے آئے۔ ہمارے دوست نے رات کو قصبے سے کچھ فاصلے پرموجود کسی ہوٹل میں ہمارے ساتھ ڈنر کا پروگرام طے کر رکھا تھا۔ رات 8 بجے تک ہمیں تیار رہنے کا کہہ کر وہ رخصت ہوئے۔

اسلام کوٹ کے قریب ایک اونٹ سے ملاقات ۔۔۔
    8 بجے کے بعد ہم ان کی گاڑی میں ڈنر کے لئے نکلے، راستے سے انہوں نے اپنے عزیز دوست کو بھی ساتھ لیا۔قصبے کی رونق سے نکل کر مٹھی کی طرف جاتی شاہراہ پر روانہ ہوئے۔ سڑک کے اطراف ریت کے ٹیلوں پر رات کی سیاہی اتر آئی تھی۔سڑک پر چھائے گہرے سناٹےمیں صرف ہماری گاڑی دوڑتی تھی۔ تقریباً 5 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ شاہراہ کے بائیں کنارے پر دور کچھ روشنیاں سی جگمگاتی نظر آئیں ۔ قریب پہنچے تو گویا ویرانے میں بہار آگئی۔سڑک کے بالکل ساتھ بہت سے کنٹینرز سجے تھے جن کے ساتھ لگی لائٹیں اس مقام پر پھیلی گہری تاریکی کو چیرتی تھیں۔

     کنٹینرزکی سامنے والی لوہے کی چادروں میں بڑے بڑے شیشے فٹ کرکے کھڑکیا ں بنادی گئی تھیں ، ایک لمبے سے کنٹینر پر ڈیپارٹمنٹل اسٹور جبکہ ایک اور کنٹینر پر ریسٹورنٹ لکھا تھا۔دونوں کنٹینرز کے درمیان سے ایک راستہ ان کے عقب میں موجود بہت سے کنٹینرز کی طرف لے جاتا تھا۔روشنی کا تو بہترین انتظام تھا ہی ، ہر کنٹینر میں دو یا تین ائر کنڈیشنربھی لگے ہوئے تھے۔
   ہمارے دوست نے بتایا کہ یہ ایس ضیا الحق اینڈ سنز (ایس زیڈ ایس) نام کی کمپنی کی ملکیت کئی کنٹینرز پر مشتمل اچھے خاصے رقبے پر پھیلا بڑا ہوٹل ہے کہ جس میں تھر کول فیلڈ میں کام کرنے والے چینی انجینئرز ،کول فیلڈ کا دورہ کرنے والے  سرکاری افسران  اورمختلف وفود کے لئے کھانے پینے کا بہترین انتظام اور رہائش کیلئے پر آسائش کمرے تک موجود ہیں۔ ایس زیڈ ایس فیسی لٹیشن سینٹر میں داخل ہوئے تو لگا کہ جنگل میں منگل کا سماں ہو، کھانے کے لئے انتہائی وسیع اور خوبصورت ڈائننگ ہال غالباً دو یا تین کنٹینرز کو ایک ساتھ جوڑ کر بنایا گیا تھا جو کہ اپنی سجاوٹ ،خوبصورتی اور فراہم کی گئی سہولتوں، آرام دہ میز کرسیوں اور معیار کے لحاظ سے پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر کے فور اسٹار ہوٹل سے کم نہ تھا۔ قصبے کی آبادی سے دورلق ودق صحرا کے بیچ اتنا بہترین اورلاجواب ہوٹل بلاشبہ ایک حیرت کدہ تھا۔ 




    اسلام کوٹ کے قریب اس حیرت کدے میں ہمیں پیش کئے گئے ڈنر کی ہرڈش بھی انتہائی لذیذ ، خوش ذائقہ اور معیاری تھی۔ صحرائے تھر کے حسن کی نیرنگیوں میں اس ہوٹل کے دلکش رنگ دیکھ کر ہم دنگ ہوتے تھے۔ اس حیرت کدے میں  اپنے میزبان دوست کی جانب سے انتہائی پر تکلف ڈنر پر ہم ان کے شکر گزار تو تھے ہی ، آ ج صحرائے تھرکی پورے دن کی تفریح  کے بعد کنٹینرہوٹل کے اس حیرت کدے کی سیر کرا نے  پر دل کی گہرائیوں سے ان کے احسان مند بھی تھے۔


    گیسٹ ہائوس واپس پہنچے تو ہم نے انہیں بتایا کہ صبح سویرے فجر کے بعد ہم یہاں سے روانہ ہو جائیں گے، لیکن وہ اپنے گھر میں ناشتہ کئے بغیر ہمیں اسلام کوٹ سے روانگی کی اجازت دینے پر تیار نہ ہوئے۔ مجھے گزشتہ سال کے سفر کے دوران لاہور میں اپنے دوست نعمان شیخ یاد آگئے کہ لاہور میں ایک شب ہم ان کے گھر مقیم تھے، انہوں نے بھی ہمیں بغیر ناشتہ کئے فجر کے فوراً بعد وادی سون سکیسر کے لئے نکلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ آج ایک بار پھرہم اپنے ایک میزبان دوست کی محبتوں کے آگے مجبور تھے۔
    گیسٹ ہائوس خاصا بڑا تھا لیکن آج شب پورے گیسٹ ہائوس میں صرف ہم ہی مقیم تھے، گیسٹ ہائوس میں رات کے وقت ایک ہی ملازم تھا ،وہ بھی شاید ہماری واپسی کے انتظار میں یہاں رکا ہوا تھا۔ گیسٹ ہائوس کے مین دروازے کی چابی ہمارے حوالے کر کے وہ بھی یہ کہتا ہواچلا گیا کہ آپ صبح اپنے دوست کے گھر چابی دیتے ہوئے چلے جائیے گا ۔
    رات کو بستر پر لیٹا تو اچھی خاصی تکان کے باوجود نیند آنکھوں میں فوراً نہ در آئی۔ سردیوں کی اس خوشگوارشب دیر تک صحرائے تھر کے خوشنما رنگ خیالوں میں تصویر کشی کرتےرہے۔ سوچ اچانک ان ریگزاروں میں بدلتے موسموں کے رنگوں میں کھو گئی ۔ برسات کے دنوں میں کالی گھٹائوں کے برسنے کا تصور کیا تو اس زرخیز صحرا میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی اور سبزرنگ پھیل گئے۔ کارونجھر کے پہاڑوں سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے، گنگناتی ندیاں چٹانوں کی بلندیوں سے اترکر ریتیلے میدانوں کے بیچ بہتی ہوئی کہیں چھوٹے چھوٹے ڈیموں کو لبالب بھر تی تھیں تو کہیں ریت کے ٹیلوں کے درمیان بنے قدرتی تالابوں میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا تھا، تھر باسیوں کے چہرے کھل اٹھتے تھے، ان کی کھیتیاں سیراب ہو کرلہلاتی تھیں، بھیڑ بکریاں ،گائیں ،اونٹ اور دیگر جانور غول در غول کسی ڈیم یا تالاب کنارے اکٹھے ہو کر اپنی پیاس بجھاتے اور ریت کے ٹیلوں اور میدانوں میں پھیلی گھاس چرتے پھرتے تھے، نگرپارکر کی سرخ چٹانیں نہا دھو کر اپنی سجاوٹ اور سرخی میں مزید نکھار لاتی تھیں۔ کہیں کسی ریگزار میں مورخوشی سے رقص کرتےتھے۔ ساون کے موسم کی چند بھرپور بارشیں تھر باسیوں کے لئے پورے سال تک خوشیاں بکھیر دیتی تھیں ۔
    دماغ میں اچانک ساون کے کچھ بانجھ موسموں کا خیال سرسرایا کہ جب کچھ برس قیامت بن کر آتے ہیں، ان ریگزاروں سے بادل بنا برسے گزر جاتے ہیں ، ذہن میں تپتے ہوئےصحرا کی جھلسا دینے والی ریت کے بگولے سے اٹھے، کہیں یہاں کے باشندوں کو پانی کے ایک ایک قطرے کی تلاش میں بھٹکتے دیکھا تو کہیں پیاسے جانوروں اور موروں کے پنجر ریت کے ٹیلوں پر بکھرے پڑے دیکھے۔ دیکھا کہ بیماریوں ،بھوک ، پیاس ، قحط اور غربت و افلاس کے عفریت نے اس عظیم صحرا کو جکڑ رکھا ہو۔ دل بہت کڑھا اور اداس ہوا۔
   صحرا میں امڈتی کالی گھٹائوں اور ساون کی جل تھل سے تھر باسیوں کے چہروں پر چمکتی آسودگی اور ان کی بستیوں میں رنگ بکھیرتی خوشحالی اور پھر اچانک تیور بدلتے موسموں کی بے رخی ، تپتی ریت پر آگ برساتے سورج کی ہولناکی اور خونخوار پنجے گاڑتی خشک سالی کے روح فرسا تصور سے میری سوچ کی ڈور الجھتی تھی ، ذہن اسی خطے اور اسی صوبے کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا تھا، کبھی ان ریگزاروں کے بیچ جا بجا سوکھی جھاڑیوں کی باڑھ میں چھپی گول گول چھپروں والی چند جھونپڑیوں میں جا پہنچتا تو کبھی بڑے بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں کی ہزاروں ایکڑ پر تاحد نظر پھیلی زمینوں ، بڑی بڑی پر آسائش حویلیوں اور محلوں کا رخ کرتا۔ 
    سوچتا تھا کہ کارونجھر کی وادیوں میں پائے جانے والے گرینائٹ کے سرخ قیمتی پتھر وہاں کے مفلوک الحال باسیوں کے حالات بدلنے کے بجائے نہ جانے کس کی نذر ہوگئے ، کارونجھر کے پہاڑوں کی کالی دھاریاں مجھے اسی غم اور سوگ میں باندھی گئی سیاہ پٹیوں کی صورت نظر آتی تھیں۔
    ذہن میں خدشہ سر ابھارتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صحرائے تھر کے سینے میں مدفون سیاہ سونے کے ڈھیروں خزانے بھی اس عظیم صحرا میں ترقی و خوشحالی اورتھر باسیوں کی کٹھن زندگی میں بہتری نہ لا پائیں اور یہ بےچارے صرف تھر کول فیلڈ کیلئے تعمیر کردہ شاندار شاہراہ کو دیکھ دیکھ کر ہی خوش ہوتے رہیں۔ میرے ذہن کے پردے پر اچانک آج شام کو سنہری ریت کے بلند ٹیلے کے پاس اس شاندار شاہراہ کی چڑھائی چڑھتی لکڑیوں سے لدی گدھا گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتے تھر کے باسی کا پسینے میں شرابور اور تھکن سے چور چہرہ ابھر آیا ، بے اختیار دل سے دعا نکلی کہ اے میرے رحیم و کریم رب تھر کے کوئلے کے یہ ذخائر اس صحرا کے باسیوں کیلئے ایسی بھرپورخوشحالی اور بے مثال ترقی کا باعث بنیں کہ میں کبھی آئندہ اس بلند ٹیلے کے پاس پہنچوں تو اسی گدھا گاڑی والے کو تیری بیش بہا نعمتوں سے لدی پھندی کسی بہترین پک اپ میں بلند ہوتی شاہراہ پر انتہائی شاداں و فرحاں اپنے گھر کی جانب رواں دواں دیکھوں کہ ۔۔۔
طارق امید بس خدا سے ہے 
وہ خزاں کو بہار کرتا ہے
   صحرائے تھر کے ان دو دنوں کے سفر کے دوران کچھ خوشی اور سکون کا احساس ہوتا تھا تو مختلف جگہ لگے ہوئے آر او پلانٹس ، پانی کا ذخیرہ کرنے والے چھوٹے بڑے ڈیمز اور ریگزاروں کے بیچ سے گزرتی اس شاندار شاہراہ کو دیکھ کر، لیکن اس عظیم صحرا کے باسیوں کی فلاح و بہبود ، ان کے لئےضروریات زندگی کی بآسانی دستیابی کے ساتھ ساتھ اس پسماندہ خطے کی ترقی اورمستقبل کی معمار نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ دل دکھی ہوتا تھا کہ قدرتی آفات بے شک اپنی جگہ لیکن تھر کے باسیوں کو ہر دوسرے یا تیسرے سال پڑنے والے قحط کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے تاحال کوئی جامع منصوبہ بندی اور احسن حکمت عملی کیوں نہ مرتب کی جاسکی۔

   قدرت کے بیش بہا رنگوں سے مزین صحرائے تھر کے باسیوں کی ہمت ،حوصلہ اور بڑاپن ہے کہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی جینا جانتے ہیں ، یہاں اجناس کی فصلیں نہ بھی لہلہائیں ، تو بھائی چارے، ہم آہنگی ،خلوص ، یگانگت ، رواداری ،محبتوں اور چاہتوں کی فصلیں ہر موسم میں لہلاتی رہتی ہیں۔

19نومبر 2016
صبح 7 بجے گیسٹ ہائوس سے نکلے اور اپنے دوست کے گھر پہنچ گئے۔اسلام کوٹ میں آج کی صبح خاصی خنک تھی۔ ناشتے میں دیگر لوازمات کے ساتھ گھر کا تازہ مکھن ،باجرے کی روٹی،دیسی گھی  اور خالص شہد بھی موجود تھا۔ہمیں بالکل ایسا لگا کہ صحرائے تھر  اور ہمارے دوست کی  محبتوں  اورچاہتوں  کے ڈھیر سے رنگ دسترخوان پر سج گئے ہوں۔

صبح سویرے اسلام کوٹ کا سنسان بازار ۔۔۔


دوست کے گھر کے سامنے ۔۔۔




    اسلام کوٹ سے کراچی پہنچ کر شام کو دفتر بھی پہنچنا تھا اس لئے ان کے گھر زیادہ وقت نہ گزار سکے ۔ہم ان کی مہمان نوازی کےبےشمار رنگوں اور محبتوں کا خزانہ سمیٹ کر روانہ ہونے لگے تو ایک خوبصورت شال  ہماری نذر کرکے انہوں نے اس خزانے میں ایک اور دلکش  و ناقابل فراموش  رنگ اور چاہت کا اضافہ کر دیا۔
   ہم ریگزاروں  کےدرمیان صبح کی خوشگوار ٹھنڈ میں شاہراہ کے دونوں اطراف بکھرے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے زیادہ تیز رفتاری سے سفر نہیں کر رہے تھے کہ اسلام کوٹ اور مٹھی کے درمیان ان کی کار ہمیں پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے نکل گئی۔مٹھی بائی پاس کے چوک تک وہ ہم سے آگے ہی رہے  ، انہوں نے ہمارے لئے اپنی رفتار کچھ آہستہ کی تو ہم نے ان کی خاطر کچھ تیزکی۔مٹھی شہر میں داخل ہونے سے قبل وہ ٹہر گئے،میں  نے بھی گاڑی روکی ، اتر کر ان سے ایک بار پھر الوداعی مصافحہ کیا ۔
   صحرائے تھر کے اختتام سے کچھ قبل سڑک کنارے کھڑی ایک شرمیلی مورنی ہمیں الوداع کہتی  دکھائی دی۔گاڑی جوں ہی اس کے قریب پہنچی ، اس نے تیزی سے سڑک سے اتر کر قریب موجود جھاڑیوں کا رخ کیا۔گاڑی روک کر کیمرہ ہاتھ میں لئےمیں تیزی سے اتر کر ان جھاڑیوں تک گیا۔اس کی ایک جھلک جھاڑیوں کے قریب  نظر آئی ،گردن اٹھا کر اس نے بھی ایک نظر مجھے دیکھا،لیکن کیمرے کے کلک سے پہلے ہی اس نے تھری خواتین کی طرح اپنا چہرہ جھاڑیوں کے بڑے سے آنچل میں چھپا لیا ، جو تصویر کھنچی اس میں وہ نہ تھی۔میں ان جھاڑیوں کے قریب تک گیا، سڑک سے نیچے اتر کر مورنی کی محبت میں جھاڑیوں کا باقاعدہ طواف کیا۔ بسیار کوشش کے باوجودتھر کی مورنی نے پھر اپنا دیدار نہ کرایا تو واپس گاڑی میں بیٹھی اپنی مورنی کی طرف پلٹ آیا۔

وہ جھاڑیاں کہ جن میں مورنی پردہ نشیں ہو گئی ۔۔۔
   10 بجے سے قبل ہی ونگو موڑ پر پہنچے، شادی لارج کے قصبے کے درمیان سے گزرتے ہوئے  بدین بائی پاس سے نکلے، پھر گولارچی کے قصبے کے نسبتاً بڑے اور بارونق بازار کے بیچ سے گزرتی سڑک سے ہوتے ہوئے  12 بجے سے قبل ہی سجاول بائی پاس تک پہنچ گئے۔

شادی لارج کے قصبے کے بازار سے گزرتے ہوئے ۔۔۔ 
    دریائے سندھ کا پل عبور کر کےسوا 12 بجے کے قریب ایک ہوٹل پر چائے پینے کے لئے رک گئے۔دوپہر ہوجانے کی وجہ سے دھوپ میں تپش کچھ بڑھ گئی تھی۔ساڑھے 12 بجے کے بعد یہاں سے روانہ ہوئے۔
    ٹھٹھہ بائی پاس سے مکلی کے قریب نیشنل ہائی وے پر پہنچنے تک سفر بہت تیزی سے بھی طے ہوا تھا اور ٹریفک بھی برائے نام ملا تھا۔   یہاں سے کراچی کا فاصلہ بہت زیادہ نہ تھا لیکن سڑک کی  خراب حالت ، ٹریفک کے اژدہام  ، بعد ازاں  لانڈھی سے راشد منہاس روڈ تک شاہراہ فیصل  اور اس پر موجود فلائی اوورز کے تعمیری کام  اور جگہ جگہ ٹریفک جام  کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے گھڑی سہ پہر کے 3 بجا چکی تھی۔
   صبح اسلام کوٹ سے نکل کر صحرائے تھر کے سناٹوں میں سفر کرتے ہوئے دوپہر کو مکلی پہنچنے تک سفر انتہائی خوشگوار تھا، ہم بھی طویل سفر کے باوجود خود کو تازہ دم محسوس کرتے تھے، مکلی کے بعد اور پھر لانڈھی کے بعد شہر کی حدود میں داخل ہوتے ہی شہر کی جعلی رونقوں اور بدترین ٹریفک جام کی کٹھنائیوں نے صرف دو گھنٹوں کے سفر کے دوران ہمیں انتہائی کوفت میں مبتلا کرکے اعصاب کو ایسا مضمحل کیا کہ کراچی پہنچتے ہی دل پھر پکارتا تھا۔۔۔
آئو کہ کہیں دور چلیں ۔۔۔
شہر کی وحشتوں اور آلودگیوں سے دور ۔۔۔
صحرائے تھر کے خوبصورت سناٹوں کی قربت میں ۔۔
کارونجھر کے دامن میں بکھری شفاف چاہتوں کے حصار میں ۔۔۔۔۔